Written by:Nishat Naeem

Notes of Urdu For FA

مسلمانوں کا قدیم طرز تعیلم

(مولانہ شبلی نعمانی)

مرکزی خیال : دین اسلام میں علم کے حصول پر بڑا اور دیا گیا ہے شروع ہی سے مسلمان حکمرنوں نے علم کی سر پرستی کی ہے ہمارے رسول پاک ﷺکو معلم بنا کر بھیجاگیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں علم کے حصول اورترقی کے لیے مسلمان کو شاں رہے ہیں ۔پہلے زمانے میں مسلمان سادہ طریقے سے تعلیم آراستہ ہوتے تھے ۔اس ضمن کے لیے انھوں نے اپنوں خانقاہوں مساجد اورعلما بھی ذاتی مکانات کا استعمال کرتے تھے ۔ علم کے ترقی کےلیے تمام علماء کرام نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہزاروں کتابیں بھی لکھی گئ جو ابھی تک علم پھیلانے میں معاون ثابت ہوی ہیں شروع سے لے کر ابھی تک ہمیں جو علم ملا رہا ہےیہ سب علما ء کی محنت اور حکومت کی سر پرستی سے پیدا ہوے ہیں ۔ علم کا یہ سلسلہ جو ابھی تک جاری ہے ضرورت ہیں اس امر کی ہے کہ ہمیں علم کی اشاعت و ترقی کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور اسے حاصل کرنے کی شدت ہونی چاہیے ۔ بقول شاعر
'ہم راے طوفان سے کشتی نکال کر '
'اس ملک کو رکھنا میرے بچوں سنبھال کر۔.

مشقی سوالات:

سوال 1 : 145ء سے پہلے مسلمانوں کا طرز تعلیم کیسا تھا ۔

145 ء سے پہلے مسلمانوں کا طرزتعلیم : 145ء سے پہلے مسلمانوں کا طرز تعلیم سادہ روایت پر قائم تھا ۔ یہ طرز تعلیم سنر روایت کی بنیاد پر قائم تھا ۔ اس دور میں باقاعدہ کتابیں لکھنے کا رواج شروع نہیں ہوا تھا ۔ سادہ انداز میں تعلیم دی جاتی تھی ۔ علوم کا تعلق زیادہ حافظ سے تھا ۔ لوگ بڑے ذہین تھے۔ تمام علوم انکی ذہنی دسترس میں تھے۔ اس زمانے میں سینہ بہ سینہ علم منتقل ہو نے کا ایک سلسلہ جاری و ساری رہتا تھا ۔ لوگ براہ راست اہل علم سے مستفید ہوتے تھے۔

سوال 2: مسلمانوں کے طرز تعلیم کے دوسرا دور پر روشنی ڈالیں۔

مسلمانوں کے طرز تعلیم کے دوسرا دور: تعلیم کا دوسرا دور عجیب دلچسپیوں سے بھرا ہوا ہے مسلمانوں کے اس دور میں اسلام چونکہ دور دار علاقوں تک پھیلا ہوا تھا۔ سیکڑوں قبیلے ریگستان عرب سے نکل کر مختلف ملکوں میں آباد ہو چکے تھے۔ بہت سی قومیں اسلام کے حلقے میں داخل ہورہی تھیں۔ اسلامی سلطنت وسیع سے وسیع تر ہو تی جارہی تھی لیکن اب تک اس وسیع سلطنت میں تعلیم کےلیے کوئ علیحدہ محکمہ قائم نہیں تھا ۔ نہ ہی یونیورسٹیاں ہیں نہ مدرسے ہیں ۔ عرب کی نسلیں حکمران ہیں مگر حکومت ایسی بے تعلق اور اوپری ہے کہ ملک کے عام اخلاق ، معاشرت تمدن پر فاتح قوم کی تہذیب کا اثر چنداں نہیں پر سکتا۔ تما م علوم پر عربی زبان کی مہر لگی ہے ۔ پھر اہل علم نے اپنی ذاتی کوششوں سے مساجد اور اپنے گھروں میں مدارس قائم تھے ۔علوم و فنون کا یہ سلسلہ تیزی سے جاری ہو گیا ۔ اسی طرح محرو ، ہرات ، نشیاپور ، بخارا ، فارس ، بخداد، مصر ، شام، اندلس ، کا ایک ایک شہر علم کا گہوارہ بن گیا۔ عام تعلیم کے لیے ہزاروں مکتب قائم کئے ان مکاتب میں سلطنت کا کوئی حصہ نہیں تھا۔ یہ سب کچھ علماء کرام رضی اللہ تعالی عنہ کی ذاتی محنت اور دلچسپی کا مرہون منت تھا۔ جس کی وجہ سے تعلیم تمام ہورہی تھی۔

سوال 3: مسلمان کے تیسرے دور تعلیم میں کیا خرابیا ں پیدا ہوئیں؟

تیسرے دور تعلیم میں خرابیاں: مسلمانوں کے تیسرے دور تعلیم میں نحو ، صرف اور منطق پر زیادہ زور دیا جانے لگا تیسرے دور میں اس بات نے تعلیم کو نہایت خراب کردیا کرفن مقصود بالذات نہ تھے مثلاً نحو ، صرف منطق و ا مثال ذالک کی گھیتال سلجھانے میں گزر جاتا۔ جس سے اصل مقصد رائیگاں ہو جاتا اور اتنا بھی وقت نہ مل سکا کہ جن علوم کی تکمیل مقصود اصلی تھی ان پر پوری توجہ ہوسکتی۔ قرآن وحدیث کا علم حاصل کرنے کے لیے صرف و نحو اور منطق سے واقعیت ضروری تھی۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ طالب علم ان بکھڑوں میں کھو جائے اور جو مقصود بالذات ہے اسکی طرف توجہ نہ دے سکے۔ مسلمانوں کے تیسرے دور تعلیم میں بے شمار کتابیں لکھی گئی جن میں اکثر کو کورس میں شامل کردیا گیا ۔ جس سے کتابی تعلیم شروع ہوئی ۔ اس سے یہ خرابی پیدا ہو گئی کہ اصل مسائل سے زیادہ کتاب کی عبارت پر اور ان متعلیقات سے بحث ہوتی جس سے مقصود علوم کی تکمیل نہ ہائی۔ سوال 4: مسلمانوں کی تعلیم و تدریس کے مراکز کون کون تھے ۔ تعلیم و تدریس کے مراکز : مسلمانوں کی تعلیم و تدریس کے بڑے مراکز مرو ، ہرات ، نشیاپور ، شام ، بخداد، اندلس ، بخارا ، مصر ، فارس اور کرطبہ کے ممالک اور شہر شامل تھے ۔ جہاں تعلیم کا سلسلہ زور شور سے جاری رہتا تھا ۔ سوال 5: تعلیم کے لیے جدا گانہ قانون کس زمانے میں بنایا گیا؟ جدا گانہ قانون : سلطنت عثمانیہ میں تعلیم کے لیے جدا گانہ قانون بنا یا گیا۔ اس قانون کے تحت مدرسوں میں خاص خاص قاعدوں کی پابندیاں شروع ہوگئی ۔ تعلیمی اصلاحت نافذ کی گئیں فارغ طالب علم کے لیے ایک خاص مدت کی تعلیم شروع ہوئی جسکی وجہ سے تعلیمی میدان میں تیزی آئی ۔

سوال 6: سندو روایت سےکیا مراد ہے ؟

سندو: جدیث کے راویوں کے سلسلے کو سندو کہا جاتا ہے دراصل سندو روایت کا طریقہ کار 145ء سے پہلے رائج تھا ۔ جتنی بھی اجادیث مبارکہ ہم تک پہنچی ہیں ان کے پہچانے میں صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ تابعین اور دیگر حضرت کا ایک سلسلہ ہے اور یہ سلسلہ حضور پاک ﷺ تک جا ملتا ہے ۔ روایت : روایت کے لفظی معنی بیان کرنے کے ہیں کسی آدمی کا کسی دوسرےآدمی کے بارے میں قول یا اس کے فعل کو نقل کرنا روایت کہلاتاہے۔

سبق نمبر 2
سقراط
(مہدی افادی )

مرکزی خیال : اس دنیا میں کئی نیک اور خود داری کی مثالیں قائم کیں ہیں ۔ ایسے لوگ اپنے مشن کو ایمانداری اور خلوص کے ساتھ سر انجام دیتے ہیں ۔ ایسے لوگ دوسروں کی خاطر جیتے ہیں کہ وہ اپنے سامنے آنے والی کسی بھی روکاوٹ کی پروا نہیں کرتے ۔ ایسے لوگ موت کو گلے لگا دیتے ہیں مگر اپنے نظریات کا سودا نہیں کرتے۔ سقراط بھی ان عظیم لوگوں میں سے ایک تھا جس پر حسد کی بنیاد پر بے شمار الزامات لگائے گئے تھے۔ اور اسے موت کا حکم دیا گیا تھا ۔ پھر بھی اس نے نیکی سچائی کا راستہ نہیں چھوڑا آخری دم تک اپنے مخلص نظریات پر ڈٹ تھا نہ ہی اپنی زندگی کی بھیک مانگی بلکہ بخوشی زہر کا پیالہ پی کر جان دےدی۔ " پروانے کو چراغ ہے بلبل کو پھول بس
صدیق کے لیے خدا کا رسول بس "

سوال 1: سقراط کے مخالفین کے ان پر کیا الزامات لگائے؟

سقراط کے مخالفین کے الزامات: سقراط کےمخالفین نے حسد بنیاد پر الزامات لگائے تھے۔ جو مندرجہ زیل ہیں۔ یہ انیھتس کے نوجوان کے اخلاق کو تباہ کرتاہے لڑکو ں کو والدین کی اطاعت نہ کرنے کا سبق دیتا ہے۔ باغوں اور دریا کے کنارے پر اپنے شاگردوں کو حکمت و فلسفہ کے نازک مسئلے سمجھا کرتا۔ ایک شاعر اس کے خلاف ایک نظم بھی لکھی جس میں اس کے بارے میں خوب برائیاں بیان کی گئیں ۔ سوال 2: سقراط کے لیے کیا تجویز کی گئی ؟ سزا کی تجویز: مسقراط پر حسد کی بنیاد پر لگائے جانے والے الزامات کے تحت عدالت میں اس کے خلاف مقدمہ چلا عدالت نے سقراط کو مجرم ٹھہرایا ۔ اور اسکے لیے سزا موت تجویز کی گئی ۔ اس نے زہر کا پیالہ پیا کر اپنی زندگی کا خاتمے کا فیصلہ کیا اور بڑی خوشی سے اپنی جان دے کر زہر کا پیالہ پی کر اپنی جان دے دی۔

سوال 3: سقراط کو فوج میں کیوں بھرتی ہونا پڑا؟

فوج میں بھرتی؛ سقراط کے زمانے کے آئیں کے مطابق ہر شہر ی کو جنگ میں بھرتی ہونا لازمی تھا ۔ سقراط ملک کے آئیں کا بہت احترام کرتا تھا۔ دوران جنگ میں انھوں نے ذنوفن اور ایسی بایڈیز جیسے لا ئق شخصوں کی جان بچائی اسی وجہ سے ان دونوں کو بھی اس کے ساتھ بہت محبت تھی ۔ لہذا ملک کے آئینی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے اسے فوج میں بھرتی ہونا پڑا۔

سوال 4: سقراط کی تعلیما ت کا خلاصہ اپنے الفاظ میں لکھیں۔

سقراط کی تعلیمات کا خلاصہ: سقراط کی تعلیمات کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ موجودہ وقت میں کام کرنے پر زور دیتا تھا مطلب یہ کہ آج کا کام کل پر نہ چھوڑتا ۔ مستقبل کے سہانے خواب دیکھنے کے خلاف تھا۔کسی چیز کا پس انداز کرنا ایک سرے سے فضول سمجھتا تھا۔سقراط کے مطابق انسان زندگی کے کسی بھی حصے علم حاصل کرسکتا ہے شوق ہونا چاہئے۔ عمر کا ہر حصہ انسان کی معلومات کو ترقی دے سکتا ہے سقراط کے نزدیک معلومات کی بڑی اہمیت ہے وہ جاہل آدمی واجب الرحم سمجھتا ہے وہ اس شخص کو اعلیٰ ظرف کہتاہے جو دشمن کے ساتھ اچھا برتاوْ کرے ۔ زیادہ سے زیادہ کوشیش اسکی یہاں تک محدود ہوں کہ دشمن کو تکلیف دینے سے محفوظ رہ سکے وہ غبت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا تھا ان کے ساتھ انتہائی رعایت یہ ہے کہ انکو کمینہ کہا جائے۔ اس نے اپنے شاگردوں کے دل و دماغ میں یہ بات بٹھائی کی کوشش کی ہے کہ جس کام کے لیے ضمیر مطمئین ہوا سے کر گزارو اور اس بات سے عرض نہ رکھو کہ لوگ کیا کہیں گے یعنی لوگوں کی مخالفیت کی متعطعات پروانہ کرو۔وہ عام مقبولیت کی خواہش کو ایک طرح سے جنون سمجھتا تھا۔

سبق نمبر 3
فاقہ میں روزہ
(خواجہ حسن نظامی)

مرکزی خیال : دنیا گول ہے وقت بھی ایک جگہ پے ٹھہراتا ہیں ۔ تبدیل ہوتا رہتا ہے ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہتا ۔ انسان ایک دوسرے کا محتاج ہوسکتا ہے مگر وقت نہیں وقت نہیں روکتا اسی طرح انسان ایک وقت میں بے شمار اختیارات کا مالک ہوتا ہے دنیا اسکے اشاروں پر ناچتی ہے پھر ایک وقت ایسا بھی آجاتا ہے کہ اختیارات اس سے چھن جاتے ہیں ساری شان و شوکت ختم ہوجاتی ہے ایک ایک روٹی کا محتاج ہو جاتا ہے خدا کی قدرت بڑی بے نیاز ہے کبھی بھی کسی کو بادشاہ یا فقیر بنا دیتی ہے ۔ وہ چاہیے تو کسی پر اپنی نعمتیں تمام کر دے یا پھر گدا بنا دے ۔ بادشا ہوں کی اولاد وں کو مزدوری کرتے نہایت کمپر سی کی حالت میں دیکھا ہے۔ لہذا انسا ن کو اپنے رب سے ہر وقت ڈرتے رہنا چاہیے اور ہر حالت میں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کیا پتہ کل اس کے ساتھ کیا معاملہ ہوگا۔ "چراغ بجھتے چلے جارہے ہیں سلسلہ وار
میں خود کو دیکھ رہا ہوں افسانہ ہوتے ہوئے"

سوال 1: مرزا سلیم والدہ کی باتوں سے کیوں آزردہ تھا؟

دل آزردہ : مرز اسلیم گانے بجانے کی محفلوں کا شوقین تھا ۔ وہ ہر وقت موسیقی سے اپنا دل بہلاتا تھا یک دن وہ رمضان کے مہینے میں رنتھن خان گویے سے گانا سن رہا تھا۔ اس وقت اسکی والدہ قرآن شریف پڑھارہی تھی لہذا اس نے یہ شورنا گوار گزر ا اور انھوں نے مرزا سلیم کو بلا کر کہا کہ رمضان میں گانے بجانے کی محفلیں بند کر دی جائیں مرزا نے ادب کی وجہ سے والدہ کی بات تو قبول کرلی مگر وہ اپنی اس تفریحی عادت کو چھوڑنا نہیں چاہتا تھا۔ اس لیے والدہ کی اس بات سے اس کا دل آرزدہ تھا کہ بغیر موسیقی اور گانوں کے اس کے رمضان کے بقیہ دن کیسے گزاریں گے۔

سوال 2: مغلیہ دور میں رمضان جامع مسجد میں کیا سماں ہوتا تھا؟

رمضان میں جامع مسجد کا سماں : مغلیہ دور میں ماہ رمضان میں جامع مسجد میں ہر طرف چہل پہل ہوئی تھی ۔ بے شمار لوگ جگہ جگہ دائروں کی شکل میں بیٹھے قرآن پاک کی تلاوت اور زکر اوزکار کر رہے ہوتے۔ علماءکرام مختلف شرعی فائل پر گفتگو کر رہے تھے ۔ قرآن سنانے والے حفظ ایک دوسرے کو قرآن سنارہے تھے ۔ بعض لوگ دل میں اللہ کا نام بسانے کے لیے مراقبے کررہےتھے۔ افطاری کے وقت شاہی محل سے پر تکلف کھانے آتیں ۔ مسسجد میں ہر طرف دستر خوان بچہ جاتے اور لوگ خوشی خوشی افطاری کرتے ۔

سوال 3: 1857ء کے بعد رمضان میں جامع مسجد کی حالت کیا تھی؟

1857ء کے بعد رمضان میں مسجد کی حالت : 1857ء کی جنگ آزادی میں ناکامی کے بعد مغلیہ سلطنت کا زوال آگیا ۔ دہلی برباد ہو گئی جامع مسجد کی وہ تمام رونقیں ختم ہوگئیں جو ماہ رمضان میں ہوا کرتی تھی جگہ جگہ چولہے بن گئے جن پر سپاہی روٹی پکاتے ۔مسجد میں گھوڑوں کے دانے دلے جاتے ہر طرف گھاش کے انبار نظر آتے ۔ شاہ جہان کی بنائی ہوئی یہ خوبصورت مسجد اصطیل میں تبدیل ہو گئی جب انگریز سرکار نے مسجد مسلمانوں کے حوالے کیا تو یہ دیکھنے میں آیا کہ رمضان کے مہینے مسجد میں وہ پہلی والی چہل پہل نہ تھی چند مسلمان میلے کچیلے پوند لگے کپڑے پہنے بیٹھے ہوئے تھے۔ دو چار قرآن شریف کی تلاوت کررہےہوئے ہوتے ۔ کچھ پریشانی کے عالم میں وظیفہ کا ورد کر رہے ہوتے۔ افطاری کے وقت بھی تھوڑی سی کھجوریں اور معمولی کھانا پیش کیا جاتا پس 1857ء کے بعد مسجد میں نہ پہلے والی رونقیں اور نہ ہی پہلے کی سی شان وشوکت باقی رہی۔ مسلمان چاروں طرف دبے چکے تھے اور انگریزی تعلیم یافتہ مسلمان تو مسجد میں کم نظر آتے ۔

سوال 4: مرزا شہ زور کون تھا؟

مرزا شہ زور: مرزاشہ زور مغل شہزاد مرزاسلیم کے بھانج تھے۔لو عمری کے باعث اکثر اپنے ماموں کی صحت میں رہتے تھے 1857ء کی جنگ آزادی میں جب سب کچھ ابتر ہو گیا تو وہ اپنی ماں ،بیوی اور کم سن بہن کو لیکر قلعے سے جان بچائی اور درد کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوگئے۔ سوال 5: میواتیوں نے مرزا شہ زور کے خاندان والوں کے ساتھ کیسا برتاوْ کیا ؟ میواتیوں کا مرزا شہ زور کے خاندان کے ساتھ برتاوْ : 1857ء جنگ آزادی میں ناکامی کے بعد انگریزوں نےدہلی پر قبضہ کر لیا لوگ اپنی جانیں بچانے کے لیے ادھر ادھر محفوظ مقامات کی طرف بھاگنے لگے ایسے نازک حالت میں مرزا شہ زور اپنی والدہ بیوی اور کمسن بہن کو لیکر بڑی مشکل سے میواتیوں کے گاوں پہنچے۔ ابتدائی دنوں میں میواتیوں نے مرزا اور اس کے خاندان والوں کے ساتھ اچھا برتاوْ کیا انہیں رہنے کےلیے چوپال میں جگہ دی اور کھانے پینے کا بندوبست کیا لیکن جلد ہی یہ لوگ اْکتا گئے اور مرزا شہ زور کو چو پال خیال کرنے کو کہا اور ایک کچے مکان میں ٹھہرایا اور ساتھ ہی مرزاکو کوئی کام کرنے کو کہا ۔ مرزا نے کھیت رکھوالی اور عورتوں نے گاوْں والوں کے کپڑے سینے کی ذمہ داری لی۔ اسی طرح مرزا اور اس کے خاندان نے میواتیوں کے گاوْ ں میں کچھ ماہ بڑی مشکل میں گزارے۔

سوال 6: ظل سجانی قلعہ چھوڑ کر کہاں چلے گئے؟

ظل سجانی: مغل سلطنت کے آخری تاجدار بہادر شاہ ظفر دہلی پر انگریزوں کا قبضہ ہو نے کے بعد لال قلعہ چھوڑ کر کسی محفوظ مقام پر چلے گئے لیکن بعد میں انگریزوں نے انہیں گرفتار کر کے انکو جلا وطن کردیا جہاں انھوں نے بڑی کمپیسرسی میں وفات پائی انھوں نے اپنے حال پر بلکل ٹھیک لکھا تھا۔
"کتنا بدنصیب ہے ظفر دفن کےلیے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوٹے یا ر میں"

سبق نمبر4
پھر وطنیت کی طرف
(مولانہ صلاح الدین احمد)

مرکزی خیال: قیام پاکستان سے پہلے مسلمان قوم ایک ملت و حدیث کے جزبے سے سر شار تھے ۔ وہ چاہتے تھے کہ برصغیر کے مسلمان ایک ملت میں پروئے ۔ جبکہ وطن کے خلاف تھی لیکن انگریز حکومت کے ظلم وستم اور ظلمانہ رویے نے مسلمانوں کو ایک علیحدہ وطن حاصل کرنے پر سوچا جہاں وہ اپنی زندگی اسلامی اصولوں کے تحت گزارسکیں ایک ایسا ملک جہاں وہ اپنے خیالات اور عبادت میں آزاد ہو ۔اس ملک کو حاصل کرنے کےلیے کئی لوگوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ۔ بے مثال قربانیاں دے کر آخر کا ر اپنے لیے علیحدہ وطن حاصل کرلیا اب یہ ہمارے اوپر لازمی ہے کہ اس ملک کی تعمیر و ترقی کےلیے اپنا کردار ادا کرے اسکی بقاء کے لیے اپنا تن من قربان کرے تاکہ ملک پوری ایشیاء میں ایک فلاحی اور مثالی ملک بن سکے ضرورت پڑنے پر اپنا مال جان اور اولاد کےلیے قربان کردیں۔
بقول علامہ اقبال
"دیں ہاتھ سے دے کر اگرآزاد ہوملت
ہے ایسی حجارت میں مسلماں کا خسارا"

سوال 1: پاکستان کے قیام سے پہلے اسلامیان ہند کے دل کسی جذبے سے سر شار تھے؟

جذبے اسلامیان ہند : قیام پاکستان سے پہلے اسلامیان ہند کے دل جس جذبے سے سر شار تھے وہ وحدت ملت کا جذبہ تھا ۔ وہ ایک قوم چاہتے تھے تاکہ وہ پوری دنیا میں عظیم قوم بن سکیں عظیم تر اسلامی قومی سلطنت کا قیام چاہتے تھے۔

سوال 2: ہماری قومی نصب العین کیا ہے؟

قومی نصب العین : ہمارا قومی نصب العین وطن دوستی اور وطن پروری ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری زندگی کا مقصد صرف وطن سے محبت اور ملک کے استحکام کے لیے کام کرنا چاہیے لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے وطن کےتحفظ اور سلامتی و ترقی کو تمام تر امور پر ترجیح دی۔

سوال3: قومی نصب العین کے حوصول کا سیدھا راستہ کون سا ہے؟

قومی نصب العین کے لیے سیدھا راستہ : قومی نصب العین کے حوصول کا سیدھا راستہ یہ ہے کہ ہم سب کو اپنی اپنی زمہ داریوں کو بخوبی نبھانا چاہیں تاکہ ہر فرد اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہو ہر شخص اپنے فرائض کو ایمانداری سے سر انجام دیں ۔ کوئی ایسا کام نہ کرے جس سے ملک میں موجود غیر مسلم اقلیتوں کو نقصان پہنچے بلکہ انہیں مفید شہری بنانے کے لیے اقلیت اور اکثریت کے درمیان قومی مقاصد پر فکری ہم آہنگی پیدا ہو ۔ ہمیں چاہیے ک ہم وطن کی استحکام کےلیے اپنا کردار ادا کریں ۔

سوال 4: ہمیں پاکستان کا تصور کس نے دیا؟

ہمیں پاکستان کا تصور مفکر اسلام علامہ محمد اقبال نے دیا۔

سوال5: اقبال نے مسلمانان ہند کی عملی سیاسیات کی طرف اپنی توجہ کیوں مبذول کی؟

اقبال کی عملی سیاسیات کی طرف توجہ: مفکر اسلام نے اپنے شاعرانہ الہامات سے لکل مسلمانان کے مفادات کا تحفظ اور انکے ساتھ ہمدردی کی وجہ سے عملی سیاسیات کی طرف توجہ مبذول کی ۔ جسکے نتیجے میں انھیں شمال مغربی ہندوستان میں ایک الگ اسلامی وطن کی قیام کی ضرورت پیش آئی۔

سوال 6: اقبال کا تصور پاکستان اس کے آفاق گیر تصور ملت سے کیوں نسبت نہیں رکھتا؟

اقبال کا تصور پاکستان : اقبال زندگی بھر ایک آفاق گیر تصور ملت کے داعی تھے مگر جب انھوں نے ملت مقصد ملت کے امکانات ترقی کے سلسلے میں شاعر مشرق نے اپنے جذبات سے امکار کی طرف انحراف کیا اور مسلمانان ہند کی عملی سیاسیاست کی طرف توجہ مبذول ک تو اسے مرچومن کی کوشش کے لیے اس دنیا کی وستیعں بے تجربے کنار اور آسمان کی رفتعیں بے کار اور بے معنی نظر آئیں ۔ ایک تاریخی خطبے میں انھوں نے مسلمانان ہند کے لیے ایک علیحدہ وطن کے حصول کو ضروری قردار دیا آپ نے پہلے آفاق گیر نظریے سے پہلے رجوع کیا زمین کے ٹکڑے کے حصول پر زور دیا کیونکہ آپ کی رائے یہ تھی کہ ایک ایسا ملک ہونا چاہیےجہاں مسلمان اپنے نظریات میں آزاد ہو تاکہ وہ اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی پر کرسکتےایسا صرف علیحدہ وطن کی صورت میں ممکن تھا۔الغرض ایک ایسا خطہ زمین کی ضرورت تھی جس میں سما کر یا سمٹ کر نے یا ہٹ کر اسے ایک آزاد اسلامی زندگی پر کرنی تھی اگرچہ اقبال کا تصور پاکستان ان کے آفاق گیر تصور ملت کے نظریے سے کوئی نسبت رکھتا تھا لیکن یہی تصور پاکستان کا نظریہ دراصل ان کے آفاق گیر تصور ملت کا ایک عملی پہلو تھا۔

سوال 7: جب ہم نے آزاد وطن پاکستان حاصل کرلیا تو بقول مصنعف اب منطقی طور پر ہمارے لیے کیا لازم ہے؟

ہمارے لیے کیا لازم : جب اپنے ملک کے مفادات اور اپنے عملی مقاصد کے فروغ کے لیے ہم نے ایک وطن حاصل کر لیا ہے تو منطقی طور پر ہمارے یہ لازم ہے کہ ہم اس کے تحفظ اور اس کے تعمیر و ترقی کو اپنی ذاتی مفادات و فرائض پر ترجیح دیں کیونکہ ہمارے بقاءاور سلامتی وطن کی بقاء و سلامتی سے وابستہ ہے کیونکہ اگر ہمارا وطن قائم رہے گا تو ہمیں خدمت دین اور تعمیر ملت کے مواقع بھی ملیں گے۔

مفصل سوالات :

سوال 1: مضمون میں مصنف نے کن اہم نکات پر روشنی ڈالی ہے؟

اہم نکات : مضمون "پھر وطنیت کی طرف" میں مصنف صلاح الدین احمد نے جن اہم نکات پر روشنی ڈالی ہے وہ مندرجہ زیل ہیں ۔
1: قیام پاکستان سے پہلے ہندوستان کے مسلمانوں میں عالم اسلام کے اتحاد کا جذبہ کوٹ کوٹ بھرا تھا۔
2: قومی نصب العین کا یقین کیا ہے اس کے تحت اپنی زندگی اسی نصب العین کو سامنے رکھ کر گزاریں اور ملک پر کسی قسم کا آنچ نہ آنے دیں۔
3: اقبال نے شاعرانہ الہامات اور تخیلات سے نکل کر مسلمانان ہند کے مفادات اور تحفظ عملی سیاست کی خاطر توجہ مبذول کی۔ سوال 5: شعر کا مفہوم : یہ شعر ہمارے قومی شاعر علامہ محمد اقبال کا ہے ۔ مصنف علامہ محمد اقبال نے اس شعر میں مسلمانوں کو یہ بات بتانے کی کوشش کی ہے کہ مسلمان ایک ہیں ان کا پالنے والا ایک ہے ان کا رسول ﷺ ایک ہے مسلمانوں کا قرآن ایک ہے اور ایک ہی کعبہ ہے اسلام نے ایک عالمگیر اسلامیہ کا تصور دیا ہے دنیا میں رہنے والے جہاں کہیں بھی مسلمان ایک ہی امت اسلامیہ سے وابستہ ہے اس ضمن میں رنگ ، نسل ذات اور زبان آڑے نہیں آتی ۔سب مسلمان اسلام کے ایک ہی لڑی میں پروے ہوئے ایک مسلمان تمام امت کا نگہبان ہے اسلام کے رشتے کی وجہ سے دنیا کے کسی بھی کونے میں بھی مسلمان رہتا ہے اسے دنیا میں بسنے والے مسلمانوں کے بارے میں فکری ہونی چاہیے کیونکہ مسلمان قوم کی مثال ایک ایسے جسم کی ہے کہ جسم کے کسی ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو پورا جم تکلیف محسوس کرتا ہےا حرام سے مراد دین ہے لہذا دین اسلام کی بقاء و سلامتی ،تحفظ اور ترقی کے لیے ہر مسلمان کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اس کا تعلق مصر سے ہو یا پھر کا شغز سے۔ لہذا ہر فرد کو اجتماعی مقاصد اور امت کی فلاح و بہبود کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ضرورت پڑنے پر اپنا تن من بھی وطن کے لیے قربان کردینا چاہیے۔
"حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک "
4: ہندوستان کےمسلمان اس بات پر متفق نظر آئے کہ ان کے دینی اور دنیاوی تحفظ محدود ہندوستان میں ایک علیحدہ وطن کا قیام ضروری ہے۔
5: ہمیں غیر مسلموں کے حقوق کا تحفط کرنا ہے وطن سے محبت کے جذبے کی بدولت انہیں مفیدی شہری بنایا جاسکتا ہے۔
6: اب اس ملک سے ہماری بقاء وابستہ ہے اگر خدا نخواستہ ایسے زوال آجائے تو سب کچھ ختم ہو جائے گا۔
7: اقلیتوں کو عزت واحترام دینے میں ہم اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ ملک کی فلاح و بہبود میں وہ برابر کا حصہ ہیں۔
8: ایک فلاحی اور خود مختار ملک حاصل کرنے کے اور اب یہ ہمارے اوپر لازمی ہے کہ اس ملک کے تعمیر و ترقی میں ہر شہری حصہ ہیں۔

سوال 2: پاکستان کا قیام برصغیر کے مسلمانوں کے لیے کیوں ضروری تھا؟

پاکستان کا قیام : پاکستان کا قیام برصغیر کے مسلمانوں کےلیے اس لیے ضروری تھا کہ انگریز جاتے جاتے ایک ایسی حکومت چھوڑ کے جارہے تھے کہ مسلمان ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محکوم ہوجاتے۔ کیونکہ ہندوستان میں اکثریت ہندوستان کی تھی ایسی حالت میں مسلمانوں کے لیے اپنی زندگی گزارنا نا ممکن تھا اس لیے اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ مسلمانوں کے لیے ایک الگ وطن بنایا جائے جہاں وہ اپنی زندگی اصولوں کے مطابق گزارسکیں جہاں وہ خود مختار ہو اپنے خیالات ، نظریات رائے حق اور عبادات میں آزاد ہو علیحدہ وطن کی صورت میں وہ اپنے مذہب تمدن رہن سہن کا تحفظ بہتر طور پر کرسکے گئے ۔ پس سیاسی،سماجی، معاشی، مذہبی اور حقوق کے فرائض و تحفظ کے لیے پاکستان کا قیام بر صغیر کے مسلمانوں کےلیے ضروری تھا۔

سوال3: ملت اسلامیہ کے اتحاد کے ضمن میں پاکستان کیا کردار ادا کرسکتے ہیں؟

ملت اسلامیہ کے اتحاد کے ضمن میں پاکستان کا کردار:
تحریک پاکستان کے نتیجے میں اللہ کے مغل مکرم سے ہم اپنے لیے ایک آزاد وطن پاکستان حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ملت اسلامیہ کے اتحاد میں سب کو ایک ایک پلیٹ فارم پر آزادانہ طور پر اکٹھا کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے وہ اپنی خارجی پالیسی اس طرح واضح کرسکتا ہے کہ اسلامی ممالک کے مابین اتحاد تعاون اور محبت کے جذبات کو فروغ ملے اسی وجہ سے ملک کی اکثریت اور اقلیت ہاتھوں میں ہاتھ دیے آگئے بڑھیں گی اور ملک کی فلاح وبہبود میں برابر کا حصہ لیں گی غیر پاکستان تمات غیر ممالک کو متحد کرتے ہیں اپنا موائژ کردار ادا کرسکتے ہیں۔
"افراد کو ہاتھوں میں اقوام کی تقدیر
ہرفرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ"

سوال 4: بقول مصنف ہم کیوں اعلائے کلمۃاللہ کرسکیں گے؟

اعلائے کلمۃ اللہ : مصنف مولانہ صلاح الدین احمد نے فرمایا ہے کہ اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے ہمارے وطن کی بقاء و سلامتی انتہائی ضروری ہے اب ہم پر لازم ہے کہ اس پھول جیسے پاکستان کی حفاظت اور ترقی کو اولین فرض سمجھیں اپنے ذاتی مفادات سے نکل کر اجتماعی مفادات کی فکرکریں اور اپنے دلی خواہشات کو ملی مفادات پر ترجیح دیں ۔ خدانخواستہ وطن کوا گر زوال آجائے تو سب کچھ ختم ہو جائے گا بلکہ پوری امت مسلمہ کا زوال ہوگا اب اس ملک سے ہماری بقاء وابستہ ہے کئی قربانیاں دے کر اس ملک کو حاصل کیا گیا ہے ۔لہذا جس قدر ہمارا ملک مضبوط اور محستکم ہوگا تو ہم اعلائے کلمۃ اللہ بھی کرسکیں گے۔